Skip to content
موجودہ گوادر کا علاقہ اس کا پرانا نام مکران ہے گوادر کے سارے علاقے میں رہنے والے لوگ بلوچ نسل کے ہیں یہ بلوچ سردار آپس میں لڑتے رہتے تھے ان کی آپس میں لڑائیاں ہوتی رہتی تھی یہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑ لڑکر تھک چکے تھے ایسے میں ان کے اوپر جب بھی کوئی سردار دوسرے کسی قبیلے سے حملہ کرتا تھا تو یہ اور زیادہ تباہی کی طرف چلے جاتے تھے
مکران کے ساتھ ایک ریاست قلات موجود تھی مکران کے لوگوں کا ریاست قلات کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا کہ ہم آپ کی بالادستی کو قبول کرتے ہیں لیکن آپ ہمارے اندر کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گےاس کے بعد شہزادہ سعید بن جانشینی اس علاقے میں آیا
گوادرپر سلطنت عمان کا قبضہ کیسے ہوا
شہزادہ سعید بن جانشینی کا تعلق سلطنت عمان سے تھا شہزادہ سعید بن جانشینی قلات اور مکران پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا تھا چنانچے شہزادے نے قلات کے لوگوں پر حملہ کیا اور اس کو ناکامی ہوئی شہزادہ اس خواہش پر تھا کہ مکران موجودہ گوادرکےمقامی لوگ اگر اس کی حمایت کریں تو یہ اس سارے علاقے کو فتح کر سکتا ہے
بلوچ جو یہاں کے مقامی لوگ تھے شہزادہ سعید نے ان کے ساتھ ملاقاتیں کرنے کا ارادہ کیا اس کے بعد 1783 میں کواڈا کے راستے مکران کے میرواری کے ایک گاؤں زک پہنچے قبیلے کے سردار داد کریم یرواری نے شہزادے کی ملاقات خان آف قلات سے کروائیں شہزادہ سعید چاہتے تھے کہ تاج و تخت کی اس لڑائی میں انہیں مکرانی فوج کی مکمل حمایت حاصل ہو مگر مکران کے جو مقامی لوگ تھے انہوں نے اس لڑائی کا حصہ بننے کے بجائے گوادر کا سارے کا سارا علاقہ اس شرط پر شہزادے کے حوالے کردیا کی اگر قلات اور مکران کے علاقے پر سعید بن جانشینی کا اقتدار بحال ہوگیا تو وہ اس علاقے کو یہاں کے سرداروں کے حوالے کر دیں گے یعنی یہ سارا علاقہ امانت کے طور پر شہزادہ سعید بن جانشینی کے حوالے کر دیا گیا شہزادے کی فتح کے بعد اس پورے علاقے میں سلطنت عمان کا جھنڈا لہرانے لگا
گوادرانڈیا کے قبضہ میں جاتے جاتے کیسے رہ گیا
جنوری 1947 میں سلطنت عمان کی جانب سے گوادر کے علاقے کو کو بیچنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا سلطنت عمان نے برطانیہ کی حکومت کی جانب سے سے گوادر کے پورے علاقے کو بیچنے کی پیشکش کا اعلان کیا اس کے بعد پورے ہندوستان کے اندر گوادر کے علاقے کے بارے میں سوچا جانے لگا ابھی پاکستان اور ہندوستان دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آئے تو انڈیا کی حکومت نے سلطنت عمان کو گوادر کے اس علاقے کے بارے میں بتایا کہ انڈیا گوادر کے علاقے کو خریدنا چاہتا ہے اس واقعے کے بعد اس علاقے پر پاکستان کی نظریں بھی جم گئی اس کے بعد گوادر کے پورے علاقے کو حاصل کرنے کےلئے پاکستان نے کوششیں شروع کر دیں
گوادر پر پاکستان کا قبضہ کیسے ہوا اور کتنے پیسوں میں گوادر کو خریدا گیا
عمان نے گوادر کے علاقے کوجب بیچنے کا اعلان کیا تو مسلسل پاکستان کی حکومت نے سلطنت عمان سے کہا کہ پاکستان گوادر کے علاقے کو خریدنا چاہتا ہے چنانچہ 1958 میں پاکستان کی کوششیں عروج پر پہنچ گئی 1958میں سلطنت عمان اور پاکستان کی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا
اس معاہدے کے تحت پاکستان کی حکومت کو گوادر کا سارا علاقہ سلطنت عمان کی طرف سے جذبہ خیر سگالی کے طور پر بالکل فری میں دے دیا گیا جس کا اظہار اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم فیروز خان نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں کیا اور عمان کے بادشاہ حضرت سعید بن تیمور نے اس علاقے کو کو بالکل فری میں پاکستان کے حوالے کردیا یا پاکستان کے آئین کی دفعہ 144 کے تحت گوادر کا سارے کا سارا علاقہ مغربی پاکستان میں شامل رہے گا اس علاقے میں رہنے والے تمام لوگوں کو دوسرے شہریوں کے برابر حقوق دیے جائیں گے اور اگر اس علاقے سے تیل نکالا گیا تو آمدنی کا کچھ حصہ عمان کو بھی ملے گا اس خبر کے بعد پورے پاکستان کے اندر ہر خوشی کی لہر دوڑ اٹھی گوادر ہمیشہ کے لئے پاکستان کا حصہ بن گیا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گوادر کے علاقے کو سلطنت عمان نے بالکل فری میں پاکستان کے حوالے نہیں کیا بلکہ اس کے عوض 4کروڑ 20لاکھ روپے پاکستان کی حکومت نے سلطنت عمان کو دیے تھے
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں